اتوار, اپریل 30, 2017

Har Jaiz Hajat Pori Ho Gi جو چیز مانگو گے آپ کو ضرور ملے گی چھوٹا سا عمل


Har Jaiz Hajat Pori Hony ka wazifa 
جو چیز مانگو گے آپ کو ضرور ملے گی چھوٹا سا عمل

کا ورد


جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز پڑھ کر قبلہ رخ بیٹھ کر یہ ورد کرتا رہے گااور مغرب کے وقت جو چیز بھی دعا میں مانگے گا انشاء اللہ ضرور عطا ہو گی


jo shakhs juma ky din asir ki nmaz ky baad qibla rukh ho kar YA ALLHO YA RAHMANNU 
ka wazifa latidaad karta rhy ga aur maghrib ky waqt jo bhi dua mn mangy ga inshaALLAH zaror ataa ho gi

اسم اللہ کے خواص ALLAH prhny ky fwaid



اسم اللہ کا وظیفہ کرنے کےحیران کن فوائد




سب سے جو اس نام کے وظیفہ کا فائدہ ہے وہ یہ ہے کہ جو کوئی روزانہ ایک ہزار بار پڑھے گا اس کو کامل یقین حاصل 
ہوتا ہے
اگر کوئی شخص کو ڈاکٹر نے لا علاج کر دیا ہو تو لاتعدا اسم اللہ اس شخص پر پڑھنے سے وہ ٹھیک ہو جاتا ہے بشرطیکہ 
موت کا وقت نہ آگیا ہو۔

دوسرے لوگوں کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔

بدھ, اپریل 12, 2017

حضور ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧعلیہ وآلہ ﻭﺳﻠﻢ ﺷﺐ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺼﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﯽ


ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﺧﻮﺷﺒﻮ
حضور ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽٰ ﺍﻟﻠﮧعلیہ وآلہ ﻭﺳﻠﻢ ﺷﺐ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺼﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺍﻋﻠﯽٰ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﻧﮯ
ﻟﮕﯽ
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ وآلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯿﺴﯽ ﮨﮯ ؟ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻼ ﮐﮧ ".. ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﻧﺪﯼ ﻣﺸﺎﻃﮧ ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﺳﮯ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﮯ ".. ﭘﮭﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﺼﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ
"ﻣﺸﺎﻃﮧ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﺩﻣﮧ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺧﻔﯿﮧ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﻻ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﮐﻨﮕﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﺗﻔﺎﻗﺎًً ﮐﻨﮕﮭﯽ ﮔﺮ ﭘﮍﯼ ۔
ﻭﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺁﺝ ﻋﺠﯿﺐ ﮐﻠﻤﮧ
ﺑﻮﻻ ﺭﺏ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ": ﻓﺮﻋﻮﻥ ﺭﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺭﺏ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﻪ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﻮ ﺭﻭﺯﯼ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ۔ "
ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺏ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ": ﮨﺎﮞ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ،ﺳﺐ
ﮐﺎ ﺭﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﯽ ﮨﮯ ۔ " ﺷﮩﺰﺍﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﻠﻮﺍﯾﺎ ۔ﻭﮦ ﺳﺨﺖ ﻏﻀﺒﻨﺎﮎ ﮨﻮﺍ
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﺳﺮ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺑﻠﻮﺍ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ،ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺏ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ".. ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ
ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺰﺭﮔﯽ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ۔ " ﻓﺮﻋﻮﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﺎﻧﺒﮯ ﮐﯽ ﺟﻮ ﮔﺎﺋﮯ ﺑﻨﯽ
ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ،ﺍﺱ ﮐﻮ ﺧﻮﺏ ﺗﭙﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺁﮒ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ
ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﭼﻨﺎﭼﮧ ﻭﮦ ﮔﺮﻡ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ۔ﺟﺐ ﺁﮒ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻭ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ": ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﺮﻭﮦ ﯾﮧ
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻥ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﮕﮧ ﮈﺍﻝ
ﺩﯾﻨﺎ ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ": ﺍﭼﮭﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﭽﮫ ﺣﻘﻮﻕ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺫﻣﮧ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺱ
ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ "- ﺍﺳﮑﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﭽﯿﺎﮞ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ
ﮈﺍﻝ ﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻓﻮﺭﺍ " ﺟﻞ ﮐﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﭘﮭﺮ ﺳﺐ
ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﺋﯽ ﺟﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﺗﯽ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ
ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ...ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﮯ ﺳﭙﺎﮨﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺴﯿﭩﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﯿﮏ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺯﺑﺎﻥ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﻧﮯ ﺑﺎ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﮩﺎ ": ﺍﻣﺎﮞ ﺟﺎﻥ ! ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮ ،ﺍﻣﺎﮞ ﺟﺎﻥ
ﺫﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﭘﺲ ﻭ ﭘﯿﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ۔ﺣﻖ ﭘﺮ ﺟﺎﻥ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﯽ ﺳﺐ
ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻧﯿﮑﯽ ﮨﮯ . ،ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺒﺮ ﺁﮔﯿﺎ ۔ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ
ﺑﮭﯽ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ
ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﺟﻼ ﮐﺮ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺎ "
" ﯾﮧ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯽ ﻣﮩﮑﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺟﻨﺘﯽ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﺁﺭﮨﯽ

تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ ہم آپ لوگوں کی خدمت اسلامی معلومات شئیر کرتے رہتے ہیں اور بھی ہمارا ساتھ دیں اسلامی معلو مات کو پھیلانے میں




حضرت ابوذَرّ غفاری رضی ا للہ تعا لیٰ عنہ کاوصالِ باکمال حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن 



اَشْتَر علیہ رحمۃ اللہ الاکبر اپنے والدِ

 محترم کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا ابوذَرّرضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ ذَرّ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب حضرتِ سیِّدُنا ابوذَرّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ صحرائی سفر پر تھے، میں بھی ان کے ساتھ تھی ، میں رونے لگی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیوں روتی ہو؟میں نے کہا: آپ اس بے آب وگیاہ ویران صحراء میں انتقال کر رہے ہیں اور اس وقت نہ تو میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے آپ کے کفن و دفن کا انتظام ہوسکے اورنہ ہی آپ کے پاس، پھر میں کیوں نہ روؤں؟ فرمایا: رونا چھوڑ، تیرے لئے خوشخبری ہے۔ ہمارے پیارے آقا، نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی بھی دو مسلمان جن کے دو یا تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ اس پر صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو وہ کبھی بھی جہنم میں داخل نہ ہوں گے اورسرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہم چند لوگوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا تم میں سے ایک شخص صحراء میں مرے گااورا س کی وفات کے وقت مؤمنین کا ایک گروہ اس کے پاس پہنچے گا۔ (مسند احمد،حدیث ابی ذر الغفاری،الحدیث۲۱۴۳۱،ج۸،ص۶ ۸۔ الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ابوذرجندب بن جنادۃ، الرقم۴۳۲، ج۴، ص۱۷۶)۔ اب ان تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں سے کوئی زندہ نہیں رہا۔ صرف میں اکیلا باقی ہوں اور ان سب کی وفات یا تو شہر میں ہوئی یا آبادی میں ۔ اور میں صحراء میں فوت ہو رہا ہوں ۔یقیناوہ شخص میں ہی ہوں ، اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!نہ میں نے جھوٹ کہااور نہ ہی مجھے جھوٹی خبر ملی ، تُو جااور دیکھ ، ضرورکوئی نہ کوئی ہماری مدد کو آئے گا۔ میں نے کہا: اب توحُجّاجِ کرام بھی جاچکے اورراستہ بند ہوگیا۔ فرمایا: تو جاکر دیکھ تو سہی۔ چنانچہ، میں ریت کے ٹیلے پر چڑھی اورراستے کی طرف دیکھنے لگی، تھوڑی دیر بعد واپس ان کے پاس آگئی اورتیمارداری کرنے لگی پھر دوبارہ ٹیلے پر چڑھ کر راہ تکنے لگی ۔ اچانک کچھ دور مجھے چند سوار نظر آئے، میں نے کپڑا ہِلا کر انہیں اس طرف متوجہ کیا تو وہ بڑی تیزی سے میری طرف آئے اور پوچھا: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! کیا بات ہے ؟ میں نے کہا : مسلمانوں میں سے ایک مرد، داعئ اَجَل کو لَبَّیْک کہنے والا ہے، کیا تم اسے کفن دے سکتے ہو؟ انہوں نے کہا : وہ کون ہے ؟ میں نے کہا: ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ کہا: وہی ابوذر جو پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں! وہی ابو ذرجو صحابئ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ یہ سنتے ہی وہ کہنے لگے : ہمارے ماں باپ ان پر قربان! وہ عظیم ہستی کہاں ہے؟ میں نے انہیں بتایا تو وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تیزی سے لپکے اورحاضرِ خدمت ہو کر سلام عرض کیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیتے ہوئے انہیں ''مرحبا''کہا اور فرمایا : تمہیں خوشخبری ہو!میں نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کویہ فرماتے ہوئے سنا: کوئی بھی دو مسلمان جن کے دو یا تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ اس پر صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو وہ کبھی بھی جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔ اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ایک گروہِ مسلمین سے مخاطب ہوکر فرمارہے تھے جس میں میں بھی موجود تھا کہ تم میں سے ایک شخص صحراء میں وفات پائے گااور مؤمنین کا ایک قافلہ اس کے پاس پہنچ جائے گا۔ (المرجع السابق)۔ اب میرے علاوہ ان میں سے کوئی زندہ نہیں ان میں سے ہر ایک یا تو آبادی میں فوت ہوا یا پھر کسی بستی میں ،اب میں ہی وہ اکیلا شخص ہوں جو صحراء میں انتقال کر رہا ہوں ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !نہ میں نے جھوٹ بولا اورنہ ہی مجھے جھوٹ بتایا گیا۔ جب میں مرجاؤں اور میرے پاس یا میری زوجہ کے پاس کفن کا کپڑ ا ہو تو مجھے اسی میں کفنادینا اگر ہمارے پاس کفن کا کپڑا نہ ملے تو میں تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دیتا ہوں کہ تم میں سے جو شخص حکومتی عہدے دار ہو یا کسی امیر کادربان ہویا کسی بھی حکومتی عہدے پر ہو تو وہ مجھے ہرگز ہرگز کفن نہ دے ۔ اتفاق کی بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حکومتی عہدے پر رہ چکا تھا یا ابھی عہدے پر قائم تھا ۔ صرف ایک انصاری نوجوان بچا جو کسی طرح بھی حکومت کا نمائندہ نہ تھا۔ وہ نوجوان آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرے پاس ایک چادر اوردو کپڑے ہیں جنہیں میری والدہ نے کات کر بنایا ہے، میں اِنہیں کپڑوں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفن دوں گا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں! تم ہی مجھے کفن دینا۔ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تو اسی انصاری نوجوان نے کفن دیااور نمازِ جنازہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہیں دفنا دیا گیا۔ (اللہ عزوجل کی اُن پر کروڑوں رحمتیں ہوں..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم) کچھ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ان کا اسم گرامی جندب بن جنادہ ہے مگر اپنی کنیت کے ساتھ زیادہ مشہور ہیں۔ بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں اور یہ اپنے زہد وقناعت اورتقوی وعبادت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں ۔ ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہوگئے تھے یہاں تک کہ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ اسلام لانے میں ان کا پانچواں نمبر ہے ۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا پھر اپنے وطن قبیلۂ بنی غفار میں چلے گئے پھر جنگ خندق کے بعد ہجر ت کر کے مدینہ منورہ پہنچے اورحضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے بعد کچھ دنوں کے لیے ملک شام چلے گئے پھر وہاں سے لوٹ کر مدینہ منورہ آئے اور مدینہ منورہ سے چند میل دور مقام''ربذہ''میں سکونت اختیارکرلی۔ (اکمال،ص۵۹۴)۔ بہت سے صحابہ اورتابعین علم حدیث میں آپ کے شاگرد ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں بمقام ربذہ ۳۲ھ؁ میں آپ نے وفات پائی۔ (اکمال ،ص۵۹۴)۔ ان کے بارے میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ارشادگرامی ہے کہ جس شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کا شوق ہووہ ابوذر کا دیدارکرلے۔ (کنزالعمال،ج۱۲،ص۲۵۵)۔

اتوار, اپریل 09, 2017

زکواۃ کی دو قسمیں ہیں: زکواۃ المال : یعنی مال کی زکواۃ، جو مال کی ایک خاص مقدار پر فرض ہے جس کی بحث سابقہ مضمون " زکواۃ کے مسائل " میں گزر چکی ہے۔ زکواۃ الفطر: یعنی بدن کی زکواۃ ، اس کو صدقہ فطر کہا جاتا ہے۔ اس مضمون میں یہی موضوع بحث ہے۔

زکواۃ کی دو قسمیں ہیں
: زکواۃ المال 
: یعنی مال کی زکواۃ، جو مال کی ایک خاص مقدار پر فرض ہے جس کی بحث سابقہ مضمون " زکواۃ کے مسائل " میں گزر چکی ہے۔ زکواۃ الفطر: یعنی بدن کی زکواۃ ، اس کو صدقہ فطر کہا جاتا ہے۔ اس مضمون میں یہی موضوع بحث ہے۔ صدقہ فطر کیا ہے ؟ فطر کے معنی زوزہ کھولنے یا زوزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اُس صدقہ کا نام صدقہ فطر ہے جو ماہ زمضان کے ختم ہونے پر زوزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقہ فطر زمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی بنتا ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " صدقہ فطر روزہ دار کی بیکار بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ ابو دائود ح ۱۶۰۶، ابن ماجہ ح ۱۸۷۲۔ صدقہ فطر مقرر ہونے کی وجہ: عیدالفطر میں صدقہ فطر اس واسطے مقرر کیا گیا ہےکہ اس میں روزہ داروں کے لئے گناہوں سے پاکیزگی اور ان کے روزوں کی تکمیل ہے۔ نیز مالداروں کے گھروں میں تو اُس روز عید ہوتی ہے مختلف قسم کے پکوان پکتے ہیں، اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں، جبکہ غریبوں کے گھروں میں بوجہ غربت اُسی طرح روزہ کی شکل موجود ہوتی ہے، لہذا اللہ تعالی نے مالدار لوگوں پر لازم ٹھرایا کہ غریبوں کو عید سے پہلے صدقہ فطر دے دیں تاکہ وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں، وہ بھی کھا پی سکیں اور اچھا پہن سکیں۔ صدقہ فطر کا وجوب: متعدد احادیث سے صدقہ فطر کا وجوب ثابت ہے، اختصار کے مد نطر تین احادیث پر اکتفا کر رہا ہوں: حضرت عبداللہ بن عمر س رضی اللہ عنہ ے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے خواہ وہ غلام ہو یا آزاد ، مرد ہو یا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا۔ بخاری ، مسلم ، دارقطنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخرمیں ارشاد فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو۔ ابو دائود اسی طرح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں ایک منادی کو اعلان کرنے کے لئے بھیجا تھا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، آزاد ہو یا غلام ، چھوٹا ہو یا بڑا۔ ترمذی صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟ جو مسلمان اتنا مالدار ہے کہ ضروریات سے زائد اُس کے پاس اُتنی قیمت کا مال و اسبات موجود ہے جتنی قیمت پر زکواۃ واجب ہوتی ہے تو اُس پر عید الفطر کے دن صدقہ فطر واجب ہے ، چاہے وہ مال و اسباب تجارت کے لئے ہو یا نہ ہو، چاہے اُس پر سال گزرے یا نہیں۔ غرضیکہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے زکواۃ کے فرض ہونے کے فرض ہونی کی تمام شرائط پائی جانی ضروری نہیں ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک صدقہ فطر کے وجوب کے لئے نصاب زکواۃ کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہے، یعنی جس کے پاس ایک دن اور ایک رات سے زائد کی خوراک اپنے اور زیر کفالت لوگوں کے لئے ہو تو وہ اپنی طرف سے اور اپنے اہل و اٰعیال کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے۔ صدقہ فطر کے واجب ہونے کا وقت: عید الفطر کے دن صبح صادق ہوتے ہی یہ صدقہ واجب ہو جاتا ہے۔ لہذا جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گیا تو اُس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے اور جو بچہ صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا ہے اُ سکی طرف سے ادا کیا جائے گا۔ صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت: صدقہ فطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید الفطر کے دن نماز عید سے پہلے ہے، البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز کے لئے جانے سے قبل ادا کر دیا جائے۔ بخاری ح ۱۵۰۹، مسلم ح ۲۲۸۵۵۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن رضی اللہ عنہ عمر گھر کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی طرف سے صدقہ فطر دیتے تھے حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دیتے تھے اور ابن عمر ان لوگوں کو دیتے تھے جو قبول کرتے اور عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے ہی ادا کرتے تھے، بخاری ح ۱۵۱۱۔ نماز عیدالفطر کی ادائیگی تک صدقہ فطر ادا نہ کرنے کی صورت میں نماز عید کے بعد بھی قضاء کے طور پر دے سکتے ہیں ۔ لیکن زیادہ تاخیر کرنا بالکل مناسب نہیں کیونکہ اس سے صدقہ فطر کا مقصود اور مطلوب ہی فوت ہو جاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کر دیا تو یہ قابل قبول زکواۃ ہو گی اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صرف صدقات میں سے ایک صدقہ ہی ہے، ابو دائود ح ۱۶۰۶۶۔ صدقہ فطر کی مقدار: کھجور اور کشمش کو صدقہ فطر میں دینے کی صورت میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ اس میں ایک صاع جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک پیمانہ ہے صدقہ فطر ادا کرنا ہے، البتہ گیہوں کو صدقہ فطر میں دینے کی صورت میں اس کی مقدار کے متعلق علماء امت میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ گیہوں میں بھی ایک صاع صدقہ فطر ادا کرنا ہو گا جبکہ علماء امت کی دوسری رائے ہے کہ گیہوں میں آدھا صاع صدقہ فطر میں ادا کیا جائے۔ حضرت عثمان، حضرت ابو ہریرہ، حضرت جابر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر، اور اسماء رضی اللہ عنہم سے صحیح سندوں کے ساتھ گیہوں میں آدھا صاع مروی ہے۔ ہندوستان و پاکستان کے بیشتر علماء بھی مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر میں گیہوں آدھا صاع ہے، یہی رائے مشہور و معروف تابعی حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی تحریر کیا ہے کہ صدقہ فطر میں آدھا صاع گیہوں نکالنا کافی ہے الاختیارات الفقیہ ص ۱۸۳۳۔ صدقہ فطر میں آدھا صاع گیہوں والے قول کو اختیار کرنے کے بعض دلائل: حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جو یا کھجور یا کشمش یا پنیر سے ایک صاع صدقہ فطر دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگوں نے گیہوں سے صدقہ فطر نکالنے کے سلسلے میں ان سے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا کہ گیہوں سے صدقہ فطر میں آدھا صاع دیا جائے، چنانچہ لوگوں نے اسی کو معمول بنا لیا۔ بخاری و مسلم صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور و معروف شرح لکھنے والے ، ریاض الصالحین کے مصنف امام نووی رحمہ اللہ مسلم کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اسی حدیث کی بنیاد پر حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر فقہاء نے گیہوں سے آدھا صاع کا فیصلہ کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گیہوں کے ایک صاع سے دو آدمیوں کا صدقہ فطر ادا کرو۔ کھجور اور جو کے ایک صاع سے ایک آدمی کا صدقہ فطر ادا کرو، دارقطنی ، مسند احمد۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ضروری قرار دی۔ صحابہ کرام نے گیہوں کے آدھے صاع کو اس کے برابر قرار دیا، بخاری و مسلم۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر ہر چھوٹے بڑے اور آزاد و غلام پر گیہوں کا آدھا صاع اور کھجور و جو کا ایک صاع ضروری ہے، اخرجہ عبدالرزاق بسند صحیح۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا صدقہ فطر میں گیہوں کا آدھا صاع اور کھجور و جو کا ایک صاع ادا کرتی تھیں، اخرجہ ابن ابی شیبہ غرضیکہ علماء امت کے اس قول کے مطابق تقریبا پونے دو کلو احتیاطا دو کلوگیہوں صدقہ فطر میں ادا کرنا ہو گا۔ کیا گیہوں کے بدلے قیمت دی جا سکتی ہے؟ صدقہ فطر میں گیہوں کی قیمت ادا کرنے میں بھی علماء امت کا زمانہ قدیم سے اختلاف چلا آ رہا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ ، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ، علماء احناف رحمہ اللہ اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تحریر کیاہے کہ گیہوں کی قیمت بھی صدقہ فطر میں دی جا سکتی ہے۔ ان حضرات کے اقوال حوالوں کے ساتھ انٹرنیٹ کے اس لنک پر پڑھے جا سکتے ہیں۔ زمانہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اب تقریبا تمام ہی علماء کرام نے تسلیم کیا ہے کہ عصر حاضر میں غلہ و اناج کے بدلے قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔ صدقہ فطر میں گیہوں کی قیمت دینے والے حضرات تقریبا پونے دو کلو گیہوں کی قیمت بازار کے بھاو کے اعتبار سے صدقہ فطر میں ادا کریں۔ صدقہ فطر کے مستحق کون ہیں یعنی صدقہ فطر کس کو دیا جائے؟ صدقہ فطر غریب و فقیر مساکین کو دیاجائے ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرا۔ متفرق مسائل: ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ یعنی جہاں آپ رہ رہے ہیں مثلا ریاض میں تو وہیں صدقہ فطر ادا کریں، ہاں اگر دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں اُس کے غریب رشتہ دار رہتے ہیں یا وہاں کے لوگ زیادہ مستحق ہیں تو اُن کو بھیج دینا مکروہ نہیں ہے۔ ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دیا جا سکتا ہے۔ جس شخص نے کسی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے، اُس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے۔ آجکل جو نوکر چاکر اجرت پر کام کرتے ہیں ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا مالک پر واجب نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بلکہ آج سے ۱۵۰ یا ۲۰۰ سال پہلے تک ناپنے اور تولنے کے لئے کوئی خاص پیمانہ موجود نہیں تھا جو ہر جگہ پر ایک ہی سائز میں مہیا ہو۔ صاع بھی ایک پیمانہ ہے جو عموما بالٹی وغیرہ کی شکل کا ہوتا تھا، جس میں عام طور پر چار مرتبہ دونوں ہاتھ بھر کر کوئی سامان رکھا جاتا تھا، لیکن اُس زمانہ میں یہ پیمانہ کسی فیکڑی میں تیار نہیں ہوتا تھا کہ سب بالکل ایک ہی سائز کے ہوں بلکہ یہ پیمانہ تھوڑا چھوٹا یا بڑا بھی ہوتا تھا، جیساکہ ہمارے علاقوں میں آج بھی ریت اور بدرپور وغیرہ فروخت کرنے کے لئے لوگ ایک بالٹی کا پیمانہ بنا لیتے ہیں۔ اس صاع کے پیمانہ کو موجودہ رائج کلو گرام کے پیمانہ سے مقار نہ کیا گیا تو علماء و مئورخین میں اختلاف ہوا ، اور اختلاف کا ہونا بدیہی بات ہے۔ چنانچہ ایک صاع اور آدھا صاع کو کلوگرام سے موازنہ کرنے پر اختلاف پیدا ہوا۔ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ فطر میں ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کھانے کی اشیاء سے دیا جائے، اور کھانے کی اشیاء سے مراد جو یا کھجور یا پنیر یا کشمش ہے جیساکہ اس حدیث کے خود راوی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث کے آخر میں وضاحت کی ہے لیکن اس میں کسی بھی جگہ گیہوں کا تذکرہ نہیں ہے، غرضیکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں کسی بھی جگہ مذکور نہیں ہے کہ گیہوں سے ایک صاع دیا جائے، ہان حدیث کی ہر مشہور و معروف کتاب حتی کہ بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ صدقہ فطر میں گیہوں دینے کی صورت میں صحابہ کرام آدھا صاع یعنی تقریبا پونے دو کلو گیہوں دیا کرتے تھے جیساکہ مندرجہ بالا احادیث میں مذکور ہے۔ محمد نجیب سنبھلی قاسمی ، ریاض

ایک شخص صبح سویرے اٹھا صاف ستھرے کپڑے پہنے اور مسجد کی طرف چل پڑا کے فجر کی نماز باجماعت ادا کروں،راستے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور سارے کپڑے کیچڑ سے بھر گئے واپس گھر آیا لباس بدل کر واپس مسجد کی طرف روانہ ہوا پھر ٹھیک اسی مقام پر ٹھوکر کھا کر گِرا اور کپڑے گندے ہو گئے پھر واپس گھر آیا اور لباس بدل کر دوبارہ مسجد کو روانہ ہوا،جب تیسری مرتبہ اس مقام پہ پہنچا تو کیا دیکھتا ہے


ایک شخص صبح سویرے اٹھا صاف ستھرے کپڑے پہنے اور مسجد کی طرف چل پڑا کے فجر کی نماز باجماعت ادا کروں،راستے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور سارے کپڑے کیچڑ سے بھر گئے واپس گھر آیا لباس بدل کر واپس مسجد کی طرف روانہ ہوا پھر ٹھیک اسی مقام پر ٹھوکر کھا کر گِرا اور کپڑے گندے ہو گئے پھر واپس گھر آیا اور لباس بدل کر دوبارہ مسجد کو روانہ ہوا،جب تیسری مرتبہ اس مقام پہ پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص چراغ ہاتھ میں لے کرکھڑا ہے اور اسے اپنے پیچھے چلنے کو کہہ رہا ہے وہ شخص اسے مسجد کے دروازے تک لے آیا،پہلے شخص نے اسے کہا کہ آپ بھی آ کر نماز پڑھ لیں، وہ خاموش رہا اور چراغ ہاتھ میں پکڑے کھڑا رہا لیکن مسجد کے اندر داخل نہیں ہوا دو تین بار انکار پر اُس نے پوچھا کے آپ مسجد آ کر نماز کیوں نہیں پڑھ لیتے ۔ دوسرے شخص نے کہا اس لیے کے میں ابلیس ہوں۔ اس شخص کی حیرانگی کی انتہا نہ تھی جب اس نے یہ سناشیطان نے اپنی بات جاری رکھی۔ یہ میں تھا جس نے تمہیں زمین پر گررایا جب تم نے واپس گھر جا کر لباس تبدیل کیا اور دوبارہ مسجد کی جانب روانہ ہوئے تو اللہ نے تمہارے سارے گناہ بخش دیے جب میں نے دوسری مرتبہ تمہیں گرایا اور تم دوبارہ لباس پہن کر مسجد کو روانہ ہوئے تو اللہ نے تمہارے سارے خاندان کے گناہ بھی بخش دیے ۔ میں ڈر گیا کے اگر اب میں نے تمہیں گرایا اور تم دوبارہ لباس تبدیل کر کے مسجد کی طرف چلے تو کہیں اللہ تمہارے سارے گاوٴں کے باشندوں کے گناہ نہ بخش دے اس لیے میں خود تمہیں مسجد تک چھوڑنے آیا۔
آپ لوگوں سے گزارش ہے کہ اسلامی معلومات کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں